برف زادی
مہان دیوی ، اے شاہ زادی ۔۔
اے داستانِ امیر حمزہ کے استعاروں کی
خواب زادی،
طلسمی معبد کے کاہنوں کی اے ساحرہ سُن !!
تمہارے شاعر کی دسترس میں
وہ حرفِ کُن سا ہُنر کہاں کہ بنا کے لائے
تمہاری تصویر ِ عنبریں سے
وہ حرف پارے ، وہ لفظ سارے ۔۔
تمہاری آنکھوں میں جھلملاتے ہوئے ستارے ،
وہ استعارے تمام چُن کر کہاں سے لائے ؟تمہارا شاعر !
اے برف زادی !!
حسین چہرہ ،جمالِ روشن، شگفتہ عارض،
کہ جن کے مبہوت کُن تصور سے لفظِ مرمر نزول پایا
اُسے وہ تشبیہ میں کیا پروسے ؟
تمہارے پیکر کی چاندنی تک
رسائی ممکن ہو تو سُخن ور
تمہاری زلفوں کی کاکلوں سے کلامِ تازہ کشید کر کے حسین لفظوں کا تاج پُرسے!!
جو نظم تخلیق ہو چکی ہو
اسے تخیل کی بھینٹ کیا دے۔۔تمہارا شاعر !!
اے شاہ زادی ، ،،،گلاب زادی،،
تُو سات رنگوں کی کہکشاں سے
زمیں پہ اُتری ہوئی غزل ہے
توُ بحرِ کامل میں لکھا شاہکارِ بے مِثل ہے