آزاد جموں کشمیر: ٹریڈیونینز پر پابندی محنت کشوں کی جدید غلامی!
تحریر: التمش تصدق
محنت کشوں کی اقتصادی جدوجہد کو مربوط اور منظم کرنے لے لیے ٹریڈیونینز انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ٹریڈیونینز نےمحنت کشوں کی معیار زندگی کو بہتری میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا۔ محنت کشوں کی مناسب اجرتوں،سماجی اور اقتصادی زندگی میں عورتوں کی مساوی شرکت ، بیماری کی صورت میں بامعاوضہ چھٹیوں کی سہولت، صحت اور صفائی کی سہولیات، سماجی تحفظ اور بڑھاپے میں پینشن کے حق کے حصول میں ٹریڈیونینز کی جدوجہد کا بنیادی کردار ہے۔سرمایہ دارنہ نظام میں سرمایہ دار حکمران طبقے اور افسر شاہی کے خلاف محنت کشوں کے پاس اپنے حقوق کے تحفظ اور حصول کی لڑائی کے لیے پہلا مورچہ ٹریڈ یونین ہے جس میں وہ منظم ہو مشترکہ مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔تاریخی طور پر بھی سرمایہ دار طبقے کے استحصال کے خلاف محنت کشوں کا ابتدائی اتحاد ٹریڈ یونین کی صورت میں نظر آتا ہے جو اگے بڑھ کر انقلابی پارٹی کی شکل میں اپنا اعلی اظہار کرتا ہے۔
1919 میں عالمی ادارہء محنت کے قیام سے دنیا بھر میں ٹریڈیونین تحریک کو تقویت ملی۔اس سے پہلے امریکہ میں 1794 میں فلاڈیلفیا میں جوتے بنانے والی فیکٹری کے مزدوروں نے ٹریڈ یونین تنظیم کا آغاز کیا۔برصغیر میں 1919 میں ٹریڈ یونین تحریک کا آغاز ہوا۔جو حق برطانوی سامراج نے 1919 میں برصغیر کے محنت کشوں کو دیا تھا وہ حق آج بھی پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے محنت کشوں کو حکمران طبقہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ آزاد جموں کشمیر میں ٹریڈ یونین پر پابندی عائد ہے۔یہاں پیدواری شعبہ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے اکثریتی محنت کشوں کا تعلق خدمات کے شعبے سے ہے۔اس خطے کے محنت کش ایسوسی ایشنز کے ذریعے اپنے مطالبات پیش کرتے رہے ہیں اور ان کی منظوری کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔حکمران طبقے نے کشمیر ایمپائر سروس ایسوسیشن( ریجسٹریشن اینڈ ریگولیشن) ایکٹ، 2016 کے تحت ان ایسوسی ایشنز کو دوبارہ رجسٹریشن کروانے کا پابند کیا۔اس ایکٹ کے مطابق ایسوسیشن کا کردار فلاحی سرگرمیوں تک محدود ہے اور یہ سروس ایسوسی ایشنز کو واضح طور پر منع کرتا ہے ہڑتال کریں یا اکسائیں، لاک آؤٹ یا سست روی اختیار کریں۔اس ایکٹ کے مطابق ایسوسی ایشن اگر ہڑتال کا علان کرے گی اس کو بدانتظامی سمجھا جائے گا اور اس کے تحت تادیبی کارروائی کی جائے گی اور محنت کشوں کو ملازمت سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ایکٹ کے مطابق جو ملازم ہڑتال جاری رکھے تنخواہ یا کسی قسم کے ماوضے کا حقدار نہیں ہو گا۔ مطالبات کی منظوری کے لیے ہڑتال، تالہ بندی یا سست روی کو 1898 کے ایکٹ v کے تحت جرم تصور کیا جائے گا۔
پاکستانی قوانین کے مطابق محنت کشوں کو بلااجازت اور بلا امتیاز ٹریڈیونین میں شامل ہونے کا حق حاصل ہے۔آئین کا آرٹیکل 17 نہ صرف انجمن سازی کی آزادی کو بلکہ اسکے کے ساتھ ساتھ اجتماعی سوداکاری کو بھی بنیادی حق تصور کرتا ہے۔آئین میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبائی حکومتوں کو ان معاملات میں قانون سازی کا اختیار ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے بطور ممبر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اس کے پاس کردہ کنونشنز میں سے کل 36 کنونشنز کی توثیق کی ہوئی ہے جس میں 33 کنونشنز لاگو ہیں۔ان میں کنونشنز نمبر 87 اجتماع کی آزادی اور کنونشنز نمبر 98 منظم ہونے کا حق اور اجتماعی سودے کاری کے متعلق ہیں۔
آزاد کشمیر میں محنت کش نہ صرف ٹریڈیونین کے حق سے محروم ہیں بلکہ دیگر بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔محنت کش ٹریڈیونین پر پابندی کے باعث ان حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد بھی نہیں کر سکتے ہیں۔نجی شعبے میں بالخصوص نجی تعلیمی اداروں میں حکومت کی اعلان کردہ کم سے کم بچیس ہزار اجرت کے نصف سے بھی کم پر کام لیا جاتا ہے۔ بیماری یا کسی اور مجبوری میں چھٹی کرنے پر اجرت میں کٹوتی کی جاتی ہے۔خواتین محنت کشوں کے پاس نجی تعلیمی اداروں کے علاوہ روزگار کے کوئی مواقع نہیں ہیں جہاں نہ صرف کم اجرت کے ذریعے سکول مالکان محنت کشوں کا بدترین استحصال کرتے ہیں اس کے علاوہ کسی بھی ملازم کو بلا کسی جواز کے نوٹس دیے بغیر نوکری سے بے دخل کر سکتے ہیں۔نجی اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے پاس روزگار کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ریاستی اداروں میں کام کرنے والے والے محنت کشوں کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔صرف محکمہء برقیات کی مثال لیں جہاں ہر سال کئی محنت کش سیفٹی کے حوالے سے آگاہی اور مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کی بھی بڑی تعداد کنٹریکٹ اور اڈھاک ملازمین کی ہے جن کے پاس روزگار کی ضمانت اور مستقبل ملازمین کو ملنے والے پینشن اور دیگر حقوق نہیں ہیں۔
آزاد کشمیر کے محنت کشوں کو نہ صرف ٹریڈیونین کے حق کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے بلکہ پاکستان اور ہندوستان کے محنت کشوں سمیت ساری دنیا کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر سرمایہ دارنہ نظام کی مزدور دشمن نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنا چاہیے۔آج حکمران طبقہ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت دیگر قومی اداروں کی نجکاری کے ذریعے محنت کشوں سے نہ صرف تعلیم اور صحت جیسا بنیادی حق چھین رہا ہے بلکہ مستقبل روزگار اور پینشن کا حق چھین کر زندگی کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔عالمی سرمایہ دارنہ استحصالی نظام کے تاریخی زوال اور بحران کی وجہ سے اصلاحات کی گنجائش بہت محدود ہے، اس لیے ٹریڈیونین کا کردار بھی آج کے عہد میں محض بارگینگ یا اجتماعی سودے بازی تک محدود نہیں ہو سکتا ہے بلکہ ان یونینز کو استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے بھی جدوجہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔مشترکہ جدوجہد ہی محنت کشوں کی
بقا کا واحد ذریعہ ہے۔