کوئی وار مُجھ پہ ہو کارگر، مرے دشمنوں کے حساب سے
اِسی انتظار میں مٙر گئے کئی درجنوں کے حساب سے
مِری چٙھت ٹپکنے لگی تو پھر مجھے اِن خیالوں نے آ لیا
کہ یہ بارشیں ذرا تیز ہیں مِرے برتنوں کے حساب سے
وہاں اِک دُوپٹہ تھا ریشمی، یہاں ایک رسّی تھی بان کی
یہی گھر سے جلدی میں مِل سکا اُنہیں گردنوں کے حساب
رہی ایک ہاتھ میں چائے اور رہی ایک ہاتھ میں گولڈ لیف
تِرے بعد میں نے بھی کم سے کم پئے یہ مٙنوں کے حساب سے
مِرے دِل بتا کہ کرے گا کیا کبھی ایک عشق پہ اکتفا؟
مجھے ایسا کچھ نہیں لگ رہا تیرے لٙچھّنوں کے حساب سے
مِری مان اِن کو اُتار دے، بڑا شور کرتے ہیں یار یہ
کِسی روز پکڑے نہ جائیں ہم تِرے کنگنوں کے حساب سے
شہِ عشق مٙیں، مہہِ حُسن تُو، تُجھے میرا ہونا ہی چاہیے
یہاں صِرف میرے ہیں دبدبے، تِرے طٙنطٙنوں کے حساب سے
عامر امیر
ع ا ص م