"خدا مر چکا ہے"
یہ اعلان فریڈرک نِطشے نے ایک سو چالیس سال پہلے کیا تھا. فلسفے کی تاریخ میں یہ چند بہترین جملوں میں سے ایک ہے. اس فلسفے نے اگلے سو سال میں آدھی دنیا کو بدل کر رکھ دیا. یورپ اور امریکہ نے سیکھ لیا کہ، دنیا کا نظام چلانے کے لیے کوئی خدا اوپر سے نہیں آئے گا، جو عدل و انصاف کرنا ہے ہمیں خود ہی کرنا ہے. قوانین خود بنانے ہیں، نفاذ خود کرنا ہے اور جزا و سزا بھی خود دینی ہے. ملک، قوم اور معاشرے کو خدا کے سہارے بےآسرا، بےیار و مددگار نہیں چھوڑا جا سکتا.
مظلوم کو انصاف یہاں اسی دنیا میں فوری فراہم کرنا ہو گا، اس کے لیے قیامت تک انتظار نہیں کیا جا سکتا. حکومتوں کو خدا کی جگہ لینی پڑے گی، آئین، قانون اور عدالت خدا کے سہارے نہیں چل سکتے. نِطشے کے ایک عظیم جملے نے کلیسا کی دنیا پلٹ کر رکھ دی. بنیادی اخلاقیات، تہذیب، تمدن کے لیے خدا کی ضرورت نہیں رہی. خدا مر نہیں گیا بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے خدا کو خود مار دیا. صدیوں پرانا خدا کا تصور ختم ہو گیا. تراشے گئے بُت پاش پاش ہو گئے اور جدید ذہن دقیانوسی عقائد و نظریات سے آزاد ہو گیا.
فریڈرک نِطشے اپنے دور کا ایک آزاد خیال ایتھئسٹ تھا. خدا کے مرنے سے مراد یہ ہر گز نہیں تھی کہ نِطشے کسی خدا کو مانتا تھا، جس کی وفات ہو گئی. بلکہ خدا کا مرنا پوری ایک ڈاکٹرائین تھی جسے نِطشے جیسا عظیم فلاسفر ہی سوچ سکتا تھا. وہ اکتوبر 1844ء کو پیدا ہوا اور صرف چوبیس سال کی عمر میں یونیورسٹی آف بازیل میں فلالوجی کی چيئر اسے دے دی گئی.
جنوری 1889ء کی ایک صبح نطشے شہر کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا، اس نے دیکھا کہ، ایک کوچوان اپنے گھوڑے کو بری طرح سے پیٹ رہا ہے. بےزبان جانور جس پر پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ لدا ہے چپ چاپ مار کھاتا ہے، لیکن کوچوان کو رحم نہیں آتا. نِطشے سے منظر دیکھا نہیں گیا، وہ دوڑتا ہوا گیا اور گھوڑے کی گردن میں بازو ڈال کر گھوڑے سے لپٹ گیا تاکہ اسے چابک سے بچایا جا سکے. نِطشے کسی بچے کی طرح بِلک بِلک کر رویا اور سڑک پر گِر پڑا. نِطشے کے دوستوں اور مکان مالک نے اسے اٹھا کر گھر تک پہنچایا، لیکن نِطشے کے دماغ پر اس واقعے کا بہت گہرا اثر پڑا. اسے بازیل کے دماغی ہسپتال میں داخل کرایا گیا، دو ہفتے بعد پاگل خانے بھیج دیا گیا. صرف 44 سال کی عمر میں اس کے ہاتھ پاؤں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا، نِطشے کی ماں اس کی دیکھ بھال کرتی رہی لیکن نِطشے دوبارہ کھڑا نہیں ہو سکا. گیارہ سال بیماری کاٹ کر صرف پچپن سال کی عمر میں نِطشے انتقال کر گیا.
نِطشے کا مقام و مرتبہ علم و ادب کی دنیا کے لوگ ہی جانتے ہیں، ننانوے فیصد پاکستانی تو نطشے کے نام سے بھی واقف نہیں، نِطشے کا فلسفہ سمجھنا اور عملدرآمد کرنا تو بہت دور کی بات ہے.