وحید مراد کی صاحبزادی ، عالیہ مراد بتاتی ہیں کہ ایکبار ان کے والد وحید مراد ان کو پِک کرنےان کے اسکول آئے ، وحید مراد کو دیکھ کر اسکول کے اطراف تقریباً تین گھنٹے ٹریفک جام جبکہ خواتین ان کے گرد جمع رہیں اسکول والوں نے اگلے دن ان کو کہا کہ آپ اپنے والد سے کہیں کہ وہ اسکول نا آیا کریں۔
یہ شہرت تھی پاکستانی اداکار وحید مراد کی اگر آپ آج ان کا کوئ کلپ یا گانا دیکھیں تو اتنے سال بعد بھی یہ اداکار آپ کو اپ ٹو ڈیٹ ہی نظر آئے گا ،پاکستانی فلم انڈرسٹری نے وحید مراد جیسا ہینڈسم اور پڑھا لکھا ہیرو اب تک نہی دیکھا جس کی فیشن سینس، مخمور آنکھیں و لہجہ ،ان کے ہیر اسٹائل کو ہندوستان میں بھی بہت پسند کیا جاتا تھا۔
دنیا نے شاہ رخ اور ٹام کروز کا عروج اور کریز دیکھا ہے مگر وحید مراد کا کریز اگر ہم اپنے بڑوں بزرگوں کی زبانی سنیں تو پتا چلتا ہے کہ سوشل میڈیا کا دور نا ہوتے ہوئے بھی جو عروج اس اداکار کو ملا ہاکستان میں اب تک شائد ہی کسی کو ملا ہو چاکلیٹی ہیرو کا ٹائیٹل جیسے اُن ہی سے منسوب ہوگیا پاکستان کے ون اینڈ اونلی چاکلیٹی ہیرو جن کی قبر کے کتبہ پر بھی ان کے نام کے ساتھ چاکلیٹی ہیرو ہی لکھا ہوا ہے ۔پاکستانی سینما کے لیے ساٹھ کی دہائ میں پہلا پاپ سانگ " کو کو کورینا "جس میں شرارت رومانس ،ڈانس اور اسٹائل کا ایسا امتزاج نظر آتا ہے جو لالی وڈ نے کبھی نا دیکھا تھا۔"ارمان " پاکستانی سینما کے تاریخ کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم تھی جس نے وحید مراد کو رات رات سوپر سے بھی اوپر پہنچا دیا تھا۔
وحید مراد کا قسمت نے خوب ساتھ دیا تھا وہ اکیس سال کی عمر میں فلم بنانے لگے ، تیئس سال میں اداکاری اور چھبیس سال میں سپر اسٹار بنے اور بارہ سال تک سپر اسٹار رہے اور پھر قسمت نے ستم بھی خوب ڈھایا ، السر کی وجہ سےstomach removal surgery ، والد کا انتقال ، اور روڈ ایکسیذنٹ میں چہرے پر نشان رہ جانا ، اس کے بعد فلموں میں اپنی پسند کے رول آفر نا ہونا اس وقت ندیم محمد علی ان سے آگے نکل چکے تھے یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پشتو فلموں کے نامور ہیرو بدرمنیر ان کے ڈرائیور تھے وحید مراد کی وجہ سے ان کو پہلے اردو فلموں میں چھوٹے موٹے رول اور بعد میں پشتو فلموں میں رولز ملنے لگیں اوریوں اپنی محنت سے وہ پشتو فلمز کے نامود اداکار کہلائے جبکہ وحید مراد پر ایک ایسا وقت آیا کہ انہیں پشتو فلموں میں چھوٹے موٹے رول اور کچھ بی گریڈ فلمز کرنی پڑیں۔
ایک ایسا ہیرو جو اپنا اسٹار ڈم بطور ہدایتکار اور پروڈیوسربھی قائم رکھ سکتا تھا اداکاری کے شعبے میں کیوں تجربے سے ڈرتا تھا حالانکہ اپنی پہلی پنجابی فلم " مستانہ ماہی " (جس کا شہرہ آفاق گیت آج بھی مشہور ہے "سیونی میرا ماہی " ) میں بطور پروڈیوسر اور ہیرو جلوہ گر ہوئے ، پھر وہ کیوں مزید تجربات سے ڈرتے رہے اور اس حال کو پہنچے ؟ آخر دیو آنند اور راج کپور اس کی عمدہ مثالیں ہیں جنہوں نے خود کو فلموں سے کسی نا کسی طرح جوڑے رکھا تھا۔