عطا اللّه خان عیسی خیلوی کہتے ہیں کہ
میں کچھ عرصہ اسلام آباد میں بھی رہا ہوں وہاں پی ٹی وی کے کسی پروگرام میں میرا گانا ریکارڈ ہوا
"بالو بتیاں وے ماہی میکوں مارو سنگلاں نال"
ریکارڈنگ ٹی وی پے چلائی گئی تو ایک دن رات دو بجے مجھے فون آیا
دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز تھی
میں ان دنوں سنگل بھی تھا اس لئے تھوڑا الرٹ هو گیا
خاتون کہنے لگی کہ
میں نے آپ کا گانا سنا مگر ایک شعر کی سمجھ نہیں آئی اگر آپ سمجھا دیتے تو
میں نے کہا کہ
خاتون رات کے دو بج رہے ہیں پھر بھی آپ بتائیں
کوشش کروں گا کہ سمجھا سکوں
خاتون بولیں
اس شعر کا مطلب بتائیں کہ
" میں اتھاں تے ڈھولا واں تے
میں سمّاں ڈھولے دی بانہہ تے"
میں نے کہا کہ
شعر کا مطلب یہ ھے کہ میں کہیں اور ہوں اور میرا محبوب کہیں اور ھے
میرا جی بڑی شدت سے چاہتا ھے کہ میں اپنے محبوب کے بازو پے سر رکھوں اور سو جاؤں
وغیرہ وغیرہ
خاتون بڑے تحمل سے میری بات سنتی رہیں جب میں خاموش ہوا تو خاتون فی الفور گویا ہوئیں
"شکل دیکھی ھے اپنی"
اور کھٹاک سے فون بند کر دیا