یہ فکرِ حلقہ ء یاراں ہے ، کاش جاری رہے
میں گمشدہ نہیں لیکن تلاش جاری رہے
ہماری چیخ میں اتنی تو سنسناہٹ ہو
فضا میں دیر تلک ارتعاش جاری رہے
کہیں سماعتوں میں چھید ہی نہ کر ڈالے
یہ داستان اگر دلخراش جاری رہے
وہ کیسے دلنشیں خوابوں کا لطف لے پائیں
کہ جن کی نیند میں فکرِ معاش جاری رہے
ہم ایسے نقص ذدہ کوزوں کی یہ قسمت ہے
اتر کے چاک سے کومل تراش جاری رہے
کومل جوئیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔