خوفناک کہانی

Admin
0

 خوفناک سفر


  ایک لڑکی کی دل دہلا دینے والی خوفناک کہانی 


وہ جب سٹیشن پوھنچی تو رات کے 10 بج رہے تھے سردی سے اس نے خود کو بچانے کے لئے صرف ایک گرم چادر لپیٹی ہوئی تھی باقی اس کے پاس کوئی سامان نہیں تھا دھند کی وجہ سے تھورے فاصلے پہ بھی کوئی نظر نہیں آرہا تھا سٹیشن بلکل ویران تھا یا پھر کوئی تھا بھی تو دھند کی وجہ سے نظر نہیں آرہا تھا وہ بینچ پہ بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرنے لگی تھوڑی دیر بعد ہی علان ہوا کے ٹرین پوہنچنے والی ہے اتنے میں چاۓ والا آیا باجی چاۓ لاؤں آپ کے لئے چاۓ کا سن کے اسے یاد آیا کے اس نے تو صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا اس نے ہاں میں سر ہلایا تو چاۓ والا چلا گیا اب سردی سے اس کے پاؤں سن ہونے لگے تو پاؤں سمیٹ کر وہ بیٹھ گئی آج جو اس کے ساتھ ہوا تھا اس نے اس کی بھوک نیند سب ختم کر دی تھی ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا تو اس نے جلدی سے صاف کیا کیوں کے چاۓ والا چاۓ لا چکا تھا اور اب پوچھ رہا تھا آپ چاۓ کے ساتھ کچھ لیں گی اس نے کہا نہیں بس تو وہ چلا گیا صبح سے اس کے سر میں بہت درد ہو رہا تھا چاۓ پی کے کچھ سکون آیا تو اٹھ کے ٹکٹ لینے چلی گئی اب اس کے پاس ایک ہی اسرا تھا اور وہ تھی اس کی بوڑھی نانی ماں کا بچپن میں ہی انتقال ہوا تھا باپ تھا جس نے اسے ماں باپ دونوں کا پیار دیا تھا لیکن آج باپ کا سایہ بھی نہیں رہا تھا باپ مزدوری کر کے اس کی چھوٹی موٹی خواھشیں پوری کرتا تھا ایک دن گھر سے نکلا تو 2 دن کوئی خبر نہیں آئ سیرت ساتھ والے چاچا کے گھر گئی کے چاچا میرے بابا کل سے گھر نہیں آے چاچا بھی پریشان ہوئے کے ایسے بچی کو چھوڑ کے کہاں جا سکتے ہیں اس نے سیرت کو تسلی دی کے بیٹا تم پریشان مت ہو میں پتہ کرتا ہوں کام والی جگہ پہ سیرت ہاں میں سر ہلاتی ہوئی پریشان گھر واپس آئ اور اپنے پیارے بابا کے لئے دعا کرنے لگی کے اللّه میرے بابا کو گھر لیکے آ میرا تو بابا کے سوا کوئی بھی نہیں ہے روتے روتے پتہ نہیں کتنا ٹیم گزرا تھا کے دروازے پہ دستک ہوئی وہ آنسو صاف کرتی ہوئی جلدی سے اٹھی کے شاید بابا آگیے ہیں دروازہ کھولا تو سامنے چاچا کھڑے تھے پریشان سیرت نے جلدی سے پوچھا چاچا کچھ پتہ چلا میرے بابا کہاں ہیں تو اس نے سیرت کی طرف دیکھ کے کہا کے بیٹا تمہارے بابا کام کرتے ہوئے چھات چھت سے گر گئے تھے تو کچھ لوگ ہسپتال لیکے گئے ہیں میں نے پتہ کیا ہے ہسپتال کا میں تمہیں لیکے چلتا ہوں سیرت یہ سن نے سے پہلے ہی زمین پہ گر گئی تھی پھر چاچا نے اپنی بیوی کو بلایا تو پھر رحمت چچی نے اسے اٹھا کے چارپائی پہ ڈالا اور منہ پہ پانی کے چھنٹے مارے پھر سیرت ہوش میں آئ اور ہوش میں آتے ہی چیخنے لگی کے مجھے بابا کے پاس جانا ہے پھر چاچا اور چچی رحمت دونوں اس کے ساتھ ہسپتال گئے وہاں جا کے معلوم ہوا کے اس کے جان سے پیارے بابا آئ سی یو میں ہیں چاچا نے ڈاکٹر سے کہا کے ڈاکٹر صاحب یہ اس کی بیٹی ہے کیا اپنے باپ سے مل سکتی ہے ڈاکٹر نے اجازت تو دی لیکن یہ کہ کے مریض کی کنڈیشن ٹھیک نہیں زیادہ بات نہیں کرنی اور ڈاکٹر نے نرس کو اشارہ کیا کے اس کو لیکے جا اندر تو نرس سیرت کو لیکے ایک کمرے کی طرف بڑھ گئی اندر اور بھی بہت سے مریض پڑے تھے کوئی بھی سہی حالت میں نہیں تھا وہاں سیرت کو خوف نے گھیر لیا اینڈ پہ جا کے دیکھا تو اس کے بابا سر سے پاؤں تک پٹیوں میں لپٹے ہوئے تھے سیرت  چیخ مار کے باپ سے لپٹ گئی اتنے میں بابا نے بھی آنکھیں کھولی ہلکی سی اور ایک آنسو نکلا آنکھ سے گال پہ پٹیوں میں جذب ہوگیا سیرت نے کہا بابا کیا ہوا آپ کو بابا یہ سب کیسے ہوا تو بابا نے کہا بیٹا میں بہت شرمندہ ہوں تم سے میں اپنی گڑیا کا خیال نہیں رکھ پاؤں گا میری جان اگر مجھے کچھ ہوا تو تم اپنی نانی کے پاس چلی جانا سیرت نے جلدی سے کہا نہیں بابا میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی بابا آپ کو کچھ نہیں ہوگا آپ بہت جلد ٹھیک ہو جاینگے اتنے میں بابا کی سانس خراب ہونے لگی تو نرس نے اس سے کہا کے آپ باہر جاؤں پلیز مریض کو آرام کرنے دو تو وہ بابا کا ماتھا چوم کے روتے ہوئے باہر آئ چاچا نے کہا بیٹا گھر چلیں کل انشااللہ پھر آجاینگے تو سیرت نے کہا نہیں چاچا میں اپنے بابا کے پاس رہوں گی تو چاچا اور چچی چلے گئے پھر اس نے وضو کیا اور کمرے کے پاس ہی بینچ پہ بیٹھ گئی اور دعایں پڑھنے لگی پڑھتے پڑھتے پتہ نہیں کتنا ٹیم گزرا تھا کے ایک نرس آئ اور کہا کے آپ کے ساتھ اور کوئی ہے تو سیرت نے کہا نہیں کوئی نہیں ہے کیا بات ہے تو نرس نے کہا کے آپ کے والد کی ڈیتھ ہو گئی ہے سیرت نے یہ سنا تو کچھ دیر اسے سمجھ نہیں لگی کے یہ کیا بول رہی ہے دماغ میں عجیب سی آندھياں چل رہی تھی جب سمجھ لگ گئی تو چیخے مار مار کے رونے لگی پھر ہمت کی اور چچا کو فون کیا چچا بھی پوھنچ گئے اور پھر بابا کی لاش کیسے گھر لیکے گئے ہوش تو تب آیا جب محلے کے لوگ اس کے بابا کو ان کی آخری آرام گاہ کی طرف لیجا رہے تھے پھر بابا کو دفن کیا گیا اس کی تو دنیاں ہی اجڑ گئی تھی ویران ہوگئی تھی رات ہوئی تو رحمت چچی اور محلے کی باقی عورتیں اس کے پاس آئ ایک عورت نے کہا بٹیا کوئی رشتے دار ہے تمہارا جہاں تم جا سکو اکیلی کیسے رہو گی اب اس نے کہا میری نانی ہیں ملتان میں میں چلی جاؤں گی پھر اس رات تو رحمت چچی اس کے پاس رک گئی اور صبح دونوں نے مل نے اس کا سامان پیک کرنا شرو کیاجاری ہے. 

رائیٹر محمد علی



Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Ok, Go it!) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Ok, Go it!