نرالی نظم

Admin
0

 فیض لدھیانوی کی اس نظم کو اکثر دوست فیض احمد فیض کے نام سے منسوب کرتے ہیں جو کہ غلط ہے

نیا سال

اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟

ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی

آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی

آسمان بدلا ہے افسوس ،نہ بدلی ہے زمیں

ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے

کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے

جنوری، فروری اور مارچ میں ہوگی سردی

اور اپریل، مئی اور جون میں ہو گی گرمی

تیرا مَن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا

اپنی میعاد ختم کر کے چلا جائے گا

تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی ، شام نئی

ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارکبادیں

کیا سبھی بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں

تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی 

فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی



Tags

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Ok, Go it!) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Ok, Go it!