چنگیر ، چھابی ہماری پاکستانی بالخصوص پنجاب کا قدیم ورثہ جو اب استعمال سے نکل کر در و دیوار کی زینت و آرائش کے لئے جس کی مانگ زیادہ ھے شاید آنے والے دنوں میں نئی نسل کو اس کے نام کے ساتھ اس کی تاریخ اور مصرف بھی سمجھانا پڑے ۔
چنگیر ، چھبی اپنے آخری دور سے گزر رہی ھے آنے والے وقتوں میں یہ ممکن ھے عجائب گھروں میں نظر آئے کیونکہ اس کو بنانے والے دن بدن کم ھوتے جا رھے صرف اجرت پر بنانے والوں میں یہ فن آگے کچھ دیر چلے گا پرانے وقتوں میں ہر گھر کی خاتون خصوصا معمر خواتین اس کو ذوق و شوق سے بناتی تھیں گھر کی ضرورت لئے بھی اور تحائف کے لئے بھی ۔ شادی بیاہ کے تحائف میں خصوصی محنت اور نت نئے نمونے بنتے جس میں شیشے کے ساتھ رنگین دھاگوں اور چمکدار کلیوں کا استعمال ھوتا ۔ اور برس ھا برس گھر میں مائیں فخر کے ساتھ بتاتی تھیں کہ میری فلاں نے اپنے
ہاتھوں سے میرے جہیز کے لئے بہت محنت سے بنائی تھی
وقت گزرتا گیا رسم و رواج بدل گئے زمانے نئے انداز سے کروٹ لے چکے ھیں آسائشوں نے کپڑوں برتنوں کے ساتھ رشتوں میں بھی اپنی جگہ بنا لی ۔ اس فرق کو وہی محسوس کر سکتا ھے جس نے کھجور کی ٹہنیاں اپنے ہاتھ سے کاٹی ھوں ایک ایک پتہ علیحدہ کر کے مختلف رنگ گھول کر ان میں ڈبو کر اس کے رنگ پختہ کئے ھوں اور پھر اپنی ذہنی ڈیزائن کو بغیر کسی کاغذ پر اتارے دن کے پہروں اور کبھی رات کو اپنی رنگدار زخمی انگلیوں سے دائروں کا یہ سفر مکمل کیا ھو ۔ اور جب اپنے کسی پیارے کے حضور اس تحفے کو پیش کیا جاتا تو سب تکھان اتر جاتی ۔ انگلیوں کی وہ تکلیف بھی ختم ھو جاتی جو ایک چنگیر بنانے کے کتنے عرصہ بعد تک محسوس کی جاتی۔
آج جب ہم 50 روپے کی ایک پلاسٹک کی چنگیر خریدتے ھیں تو کسی کو پتہ نہیں ھوتا کہ ہاتھ سے اور دل سے محنت کر کے ایک چنگیر کیسے بنائی جاتی ھے
وقت کے ساتھ ہم نے کتنی قیمتی چیزیں کھو دیں اور اس سے بھی قیمتی وہ لوگ جو ان کو بناتے تھے
تحریر اظفار الحسن.