لوہڑی
شیخو پورہ کے جنگل سے لائلپور کے رکھ تک یہ سارا ساندل بار تھا۔ بار، دریاؤں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا تھا اور پورا پنجاب پانچ باروں میں بٹا تھا۔ یہاں بسنے والے خودرو پودوں اور تیز رو پانیوں کی سرشت رکھتے تھے، آزاد، تند اور دریا دل۔
جب بیرونی حملہ آوروں کا تانتا بندھا تو احتجاج کرنے والوں میں بار کے لوگ پیش پیش تھے۔ مغلوں سے انگریزوں تک یہاں مزاحمتی مزاج کی ایک روایت قائم رہی۔ اسی تحقیر کے سبب، استعمار نے ان لوگوں کو کبھی جانگلی کہا اور کبھی غیر محسوس طریقے سے، انہیں تاریخ سے غائب کرنے کی کوشش کی۔ مٹی سے وابستہ لوگوں نے اس کا دلچسپ حل نکالا اور ساری تاریخ گیتوں میں ڈھال لی۔ ماؤں، دادیوں نے جنم جنم کی کہانیاں، لفظوں میں لپیٹ کر طاقوں میں رکھنے کی بجائے، لوریوں میں ڈھانپ کر سینوں میں سنبھالنا شروع کر دیں۔ لفظ پھسل نہ جائیں، اس اندیشے کے سبب ان گیتوں کی دھن، لوری کی تھاپ، چرخے کے چکر اور چکی کی چال کو سونپ دی۔ اب پرکھوں کی بہادری کی داستانیں، نسل در نسل بچوں کو منتقل ہونے لگیں اور یوں یہ لوگ کسی نہ کسی وار کا حصہ بن کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
سندر مندرئے
تیرا کون وچارا ہو،
دلا بھٹی والا
دُلے دی دھی ویاہی،
شیر شکر پائی
یہ لوہڑی کا گیت تھا جس کے بہت سے مواقع ہیں۔ کوئی اسے شادی بیاہ پہ گاتا ہے، کوئی بیٹا پیدا ہونے پہ اور کہیں کہیں لوہڑی بدلتے موسموں کا سندیس ہے۔ کوئی وقت تھا کہ گلی کے لڑکےبالے اکٹھے ہوتے اور یک آواز ہو کر ایک گھر کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور گاتے۔۔
ڈبہ بھریا لیراں دا
تے ایہو گھر امیراں دا
دروازہ کھلتا تو گھر والوں سے سندر مندرئے گا کر لوہڑی وصول کی جاتی۔ یہ شگن کبھی شکر اور چنوں کی صورت تو کبھی گڑ کی بھیلیوں کی شکل میں دیا جاتا۔ لوہڑی مانگنے والوں کو خالی ہاتھ لوٹانا بدشگونی تصور کیا جاتا۔ مگر وہ وقت اور تھے، تب تہوار ہندو یا مسلمان نہیں ہوتے تھے اور لوگ رب راکھا کہہ کر ایک دوسرے سے رخصت ہو جایا کرتے تھے۔ خدا حافظ کہنے والوں کو اللہ حافظ کی تلقین نہیں کی جاتی تھی۔ اب لوہڑی اسلام کے دائرے سے خارج ہے اور مغربی پنجاب میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔
کئی سال گزرے، ہندوستان کی کھڑکی سے پاکستان میں یہ آواز فلم کے نغمے کی صورت پہنچی۔ لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا تو دو لوگ بہت روئے، ایک تھا چڑھدا پنجاب اور دوسرا تھا، لہندا پنجاب۔